ہمارے نبی نے کسی کی بکریاں نہیں چرائیں
اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر ایسا عمل جو مخلوق کے لیے باعثِ نفرت ہو، جیسے کہ خیانت، جہل وغیرہ، اور ہر ایسا مرض جو سببِ نفرت ہو، جیسے کہ جذام، برص وغیرہ، اور ہر ایسا ذلیل پیشہ جسے لوگ عیب و نقص سمجھتے ہوں، جیسے کہ حجامت اور اجرت پر ذلیل پیشہ، تو انبیاے کرام علیہم السلام ان سب سے منزہ اور پاک ہیں-
عقائد کی بہت مشہور و معتبر کتاب مسایرہ اور اس کی شرح مسامرہ میں ہے:
وشرط النبوۃ السلامۃ من دنائۃ الآباء ومن غمز الامھات ومن القسوۃ والسلامۃ من العیوب المنفرۃ کالبرص والجذام ومن قلۃ المروۃ کا لا کل علی الطریق ومن دناءۃ الصناعۃ کالحجامۃ لان النبوۃ اشرف مناصب الخلق مقتضیۃ غایت الا جلال اللائق بالمخلوق فیعتبر لھا ما ینا فی ذلک، ملخصاً
(کتاب مذکور، صفحہ نمبر93)
یعنی نبوت کی شرط پستی نسب اور اتہام امہات اور سخت دلی سے سلامتی ہے اور باعثِ نفرت عیبوں، جیسے برص و جذام سے اور قلت مروت جیسے راستے میں کھانا کھانے سے اور پیشہ کی ذلت وپستی جیسے حجامت سے پاک ہونا ہے؛ اس لیے کہ نبوت مخلوق کے منصبوں کا بہتر شرف اور اس کے لیے عزت کا انتہائی طالب ہے، تو نبوت کے لیے اس کے منافی امور کا نہ ہونا اعتبار کیا گیا-
حضرت علامہ قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
قد اختلف فی عصمتھم (ای الانبیاء) من المعاصی قبل النبوۃ فمنعھما قوم وجوزھا اخرون والصحیح تنزیھھم من کل عیب وعصمتھم من کل یوجب الریب-
(شرح شفا مصری، جلد2، صفحہ نمبر264)
یعنی انبیا کے قبل نبوت معاصی سے پاک ہونے میں اختلاف ہوا تو اس کو ایک قوم نے منع کیا اور دوسروں نے جائز رکھا اور صحیح مذہب یہ ہے کہ انبیاے کرام ہر عیب سے پاک ہیں اور ہر اس چیز سے جو شک پیدا کرے، معصوم ہیں-
اور یہ ظاہر ہے کہ اجرت پر (کسی کی) بکریاں چرانا ایسا ذلیل پیشہ ہے جو باعثِ ننگ و عار اور سبب عیب و نقص ہے؛ اسی بنا پر شارح مشکوٰۃ شریف، حضرت علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ شفا شریف میں خاص اسی مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والمحققون علی انہ علیہ الصلاۃ والسلام لم یرع لا حد بالا جرۃ وانمار عی غنم نفسہ وھم لم یکن عیبا فی قومہ-
(شرح شفا مصری، جلد2، صفحہ نمبر448)
یعنی، اور محققین فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے اجرت پر کسی کی بکریاں نہیں چرائیں- آپ نے تو صرف اپنی بکریاں چرائیں اور اپنی بکریاں چرانا آپ کی قوم میں عیب نہیں تھا-
اس عبارت نے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اجرت پر کسی کی بکریاں نہیں چرائیں-
بخاری، مسلم و ابن ماجہ وغیرہ کتب حدیث میں ایک روایت ہے جس سے بعض لوگوں کو اشتباہ ہو گیا؛ بخاری شریف میں ان الفاظ کے ساتھ روایت ہے:
کنت ارعاھا علی قراریط لا ھل مکہ
ان کلمات میں نہ تو کہیں اجرت کی تصریح ہے اور نہ اجرت پر دلالت کرنے والا کوئی کلمہ ہے؛ اس حدیث میں لفظ "قراریط" آیا ہے جسے بعض نے چاندی اور سونے کے سِکوں کے کسی جز کو سمجھ لیا ہے حالانکہ اس لفظ سے یہ معنی مراد لینا غلط ہے- چنانچہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ محمد ابن ناصر نے فرمایا:
حضرت سوید نے قراریط کی تفسیر سونے چاندی کے ساتھ کر کے خطا کی، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی کسی کی بکریاں اجرت پر نہیں چرائیں، آپ تو اپنی بکریاں چراتے تھے، اور قراریط کی صحیح تفسیر وہ ہے جو حدیث و لغت وغیرہ کے امام حضرت ابراہیم اسحاق نے بیان فرمائی، اور وہ یہ ہے کہ قراریط تو اسی مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے-
(ملخصاً، شرح شفا مصری، جلد2، صفحہ نمبر460)
اس عبارت سے واضح ہو گیا کہ جب حدیث شریف کے لفظ قراریط سے سونے چاندی کے کوئی سکے مراد نہیں ہے بلکہ قراریط مکہ مکرمہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے تو اب بخاری شریف کی اس حدیث کا ترجمہ یہ ہوا کہ میں تو اسی مکہ کے مقام قراریط میں (اپنی) بکریاں چراتا تھا- اب بھی اگر کوئی اس حدیث کو دلیل بنا کر حضور علیہ السلام کو چرواہا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ عدم محبت اور بغض کی نشانی ہے-
انبیاے کرام علیہم السلام کے لیے کوئی ایسی بات کرنا بھی درست نہیں جس میں ادنی توہین کا شائبہ بھی ہو اور سلف و خلف بھی اس کو ناجائز فرماتے ہیں، چنانچہ عقائد کی کتاب شرحِ مواقف میں ہے کہ اجماع و نص سے یہ کہنا صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور یہ صحیح نہیں کہ اللہ تعالیٰ نجاستوں کا خالق ہے اور بندروں اور سوروں کا خالق ہے اگرچہ یہ اللہ تعالٰی کی ہی مخلوق ہیں-
(شرحِ موافق، صفحہ نمبر640)
حضور علیہ السلام کو اجرت پر بکریاں چرانے والا ثابت کرنے کی وہی کوشش کرے گا تو تحقیر شان مصطفی کا عادی ہو؛ ایسے لوگوں کا حکم یہ ہے:
وکذالک اقول حکم من غمصہ اوغیرہ برعایۃ الغنم ای یرعیھا بالاجرۃ اوالسھو والنسیان مع انھما ثابتان عنہ الا انہ انما یکفر لا حل التعبیر سبب التحقیر-
(شرح شفا، جلد2، صفحہ نمبر402)
یعنی اسی طرح میں اس شخص کا حکم بیان کرتا ہوں جس نے حضور علیہ السلام کو عیب لگایا یا اجرت پر بکریاں چرانے کے ساتھ تحقیر کی یا سہو ونسیان کے ساتھ حقارت کی، تو وہ کافر ہے تحقیر و تعبیر کے سبب سے-
(ملخصاً، فتاوی اجملیہ، جلد1، صفحہ نمبر44، شبیر برادرز لاہور)
ایک دوسرے مقام پر علامہ مفتی محمد اجمل قادری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ عرفی اعتبار سے وہ پیشہ وکسب ذلیل اور قابل عار ہوتا ہے جو دوسرے کے لیے کسی اجرت و نفع کے عوض کیا جائے اور جو کام اپنے لیے کیا جائے وہ اس کا پیشہ کہلاتا ہے نہ اسے اہل عرف ذلیل سمجھتے ہیں- مثلاً کوئی شخص دوسرے کی بکریاں اجرت پر چرائے تو یہ پیشہ عیب و عار ہے اور جو شخص خود اپنی بکریاں چرائے وہ عیب نہیں، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے اپنی بکریاں چرائیں-
(دیکھیے: فتاویٰ اجملیہ، جلد4، صفحہ نمبر57، شبیر برادرز لاہور)
Visit Our Blog For More :-
bazmefaizanerazaofficial.blogspot.com
Join Our Telegram Channel :-
http://t.me/bazmefaizanerazaofficial
Contact Us | +919102520764
Bazme Faizan -e- Raza Pvt. Ltd.
اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر ایسا عمل جو مخلوق کے لیے باعثِ نفرت ہو، جیسے کہ خیانت، جہل وغیرہ، اور ہر ایسا مرض جو سببِ نفرت ہو، جیسے کہ جذام، برص وغیرہ، اور ہر ایسا ذلیل پیشہ جسے لوگ عیب و نقص سمجھتے ہوں، جیسے کہ حجامت اور اجرت پر ذلیل پیشہ، تو انبیاے کرام علیہم السلام ان سب سے منزہ اور پاک ہیں-
عقائد کی بہت مشہور و معتبر کتاب مسایرہ اور اس کی شرح مسامرہ میں ہے:
وشرط النبوۃ السلامۃ من دنائۃ الآباء ومن غمز الامھات ومن القسوۃ والسلامۃ من العیوب المنفرۃ کالبرص والجذام ومن قلۃ المروۃ کا لا کل علی الطریق ومن دناءۃ الصناعۃ کالحجامۃ لان النبوۃ اشرف مناصب الخلق مقتضیۃ غایت الا جلال اللائق بالمخلوق فیعتبر لھا ما ینا فی ذلک، ملخصاً
(کتاب مذکور، صفحہ نمبر93)
یعنی نبوت کی شرط پستی نسب اور اتہام امہات اور سخت دلی سے سلامتی ہے اور باعثِ نفرت عیبوں، جیسے برص و جذام سے اور قلت مروت جیسے راستے میں کھانا کھانے سے اور پیشہ کی ذلت وپستی جیسے حجامت سے پاک ہونا ہے؛ اس لیے کہ نبوت مخلوق کے منصبوں کا بہتر شرف اور اس کے لیے عزت کا انتہائی طالب ہے، تو نبوت کے لیے اس کے منافی امور کا نہ ہونا اعتبار کیا گیا-
حضرت علامہ قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
قد اختلف فی عصمتھم (ای الانبیاء) من المعاصی قبل النبوۃ فمنعھما قوم وجوزھا اخرون والصحیح تنزیھھم من کل عیب وعصمتھم من کل یوجب الریب-
(شرح شفا مصری، جلد2، صفحہ نمبر264)
یعنی انبیا کے قبل نبوت معاصی سے پاک ہونے میں اختلاف ہوا تو اس کو ایک قوم نے منع کیا اور دوسروں نے جائز رکھا اور صحیح مذہب یہ ہے کہ انبیاے کرام ہر عیب سے پاک ہیں اور ہر اس چیز سے جو شک پیدا کرے، معصوم ہیں-
اور یہ ظاہر ہے کہ اجرت پر (کسی کی) بکریاں چرانا ایسا ذلیل پیشہ ہے جو باعثِ ننگ و عار اور سبب عیب و نقص ہے؛ اسی بنا پر شارح مشکوٰۃ شریف، حضرت علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ شفا شریف میں خاص اسی مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والمحققون علی انہ علیہ الصلاۃ والسلام لم یرع لا حد بالا جرۃ وانمار عی غنم نفسہ وھم لم یکن عیبا فی قومہ-
(شرح شفا مصری، جلد2، صفحہ نمبر448)
یعنی، اور محققین فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے اجرت پر کسی کی بکریاں نہیں چرائیں- آپ نے تو صرف اپنی بکریاں چرائیں اور اپنی بکریاں چرانا آپ کی قوم میں عیب نہیں تھا-
اس عبارت نے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اجرت پر کسی کی بکریاں نہیں چرائیں-
بخاری، مسلم و ابن ماجہ وغیرہ کتب حدیث میں ایک روایت ہے جس سے بعض لوگوں کو اشتباہ ہو گیا؛ بخاری شریف میں ان الفاظ کے ساتھ روایت ہے:
کنت ارعاھا علی قراریط لا ھل مکہ
ان کلمات میں نہ تو کہیں اجرت کی تصریح ہے اور نہ اجرت پر دلالت کرنے والا کوئی کلمہ ہے؛ اس حدیث میں لفظ "قراریط" آیا ہے جسے بعض نے چاندی اور سونے کے سِکوں کے کسی جز کو سمجھ لیا ہے حالانکہ اس لفظ سے یہ معنی مراد لینا غلط ہے- چنانچہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ محمد ابن ناصر نے فرمایا:
حضرت سوید نے قراریط کی تفسیر سونے چاندی کے ساتھ کر کے خطا کی، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی کسی کی بکریاں اجرت پر نہیں چرائیں، آپ تو اپنی بکریاں چراتے تھے، اور قراریط کی صحیح تفسیر وہ ہے جو حدیث و لغت وغیرہ کے امام حضرت ابراہیم اسحاق نے بیان فرمائی، اور وہ یہ ہے کہ قراریط تو اسی مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے-
(ملخصاً، شرح شفا مصری، جلد2، صفحہ نمبر460)
اس عبارت سے واضح ہو گیا کہ جب حدیث شریف کے لفظ قراریط سے سونے چاندی کے کوئی سکے مراد نہیں ہے بلکہ قراریط مکہ مکرمہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے تو اب بخاری شریف کی اس حدیث کا ترجمہ یہ ہوا کہ میں تو اسی مکہ کے مقام قراریط میں (اپنی) بکریاں چراتا تھا- اب بھی اگر کوئی اس حدیث کو دلیل بنا کر حضور علیہ السلام کو چرواہا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ عدم محبت اور بغض کی نشانی ہے-
انبیاے کرام علیہم السلام کے لیے کوئی ایسی بات کرنا بھی درست نہیں جس میں ادنی توہین کا شائبہ بھی ہو اور سلف و خلف بھی اس کو ناجائز فرماتے ہیں، چنانچہ عقائد کی کتاب شرحِ مواقف میں ہے کہ اجماع و نص سے یہ کہنا صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور یہ صحیح نہیں کہ اللہ تعالیٰ نجاستوں کا خالق ہے اور بندروں اور سوروں کا خالق ہے اگرچہ یہ اللہ تعالٰی کی ہی مخلوق ہیں-
(شرحِ موافق، صفحہ نمبر640)
حضور علیہ السلام کو اجرت پر بکریاں چرانے والا ثابت کرنے کی وہی کوشش کرے گا تو تحقیر شان مصطفی کا عادی ہو؛ ایسے لوگوں کا حکم یہ ہے:
وکذالک اقول حکم من غمصہ اوغیرہ برعایۃ الغنم ای یرعیھا بالاجرۃ اوالسھو والنسیان مع انھما ثابتان عنہ الا انہ انما یکفر لا حل التعبیر سبب التحقیر-
(شرح شفا، جلد2، صفحہ نمبر402)
یعنی اسی طرح میں اس شخص کا حکم بیان کرتا ہوں جس نے حضور علیہ السلام کو عیب لگایا یا اجرت پر بکریاں چرانے کے ساتھ تحقیر کی یا سہو ونسیان کے ساتھ حقارت کی، تو وہ کافر ہے تحقیر و تعبیر کے سبب سے-
(ملخصاً، فتاوی اجملیہ، جلد1، صفحہ نمبر44، شبیر برادرز لاہور)
ایک دوسرے مقام پر علامہ مفتی محمد اجمل قادری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ عرفی اعتبار سے وہ پیشہ وکسب ذلیل اور قابل عار ہوتا ہے جو دوسرے کے لیے کسی اجرت و نفع کے عوض کیا جائے اور جو کام اپنے لیے کیا جائے وہ اس کا پیشہ کہلاتا ہے نہ اسے اہل عرف ذلیل سمجھتے ہیں- مثلاً کوئی شخص دوسرے کی بکریاں اجرت پر چرائے تو یہ پیشہ عیب و عار ہے اور جو شخص خود اپنی بکریاں چرائے وہ عیب نہیں، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے اپنی بکریاں چرائیں-
(دیکھیے: فتاویٰ اجملیہ، جلد4، صفحہ نمبر57، شبیر برادرز لاہور)
Visit Our Blog For More :-
bazmefaizanerazaofficial.blogspot.com
Join Our Telegram Channel :-
http://t.me/bazmefaizanerazaofficial
Contact Us | +919102520764
Bazme Faizan -e- Raza Pvt. Ltd.
No comments:
Post a Comment